من أنا

صورتي
أنشئت هذه المدونة بناء على رغبة بعض الأحبة المخلصين الأوفياء؛ حتى تتسع دائرة مشاركاتي المتنوعة على الشبكة العنكبوتية؛ ولتعم الفائدة، وأيضا ليتدرب صاحبها على الكتابة الإبداعية ويستفيد من العلماء والباحثين الآخرين من دراساتهم وبحوثهم العلمية القيمة. فهذه المدونة تحتضن -إن شاء الله- الكتابات العلمية والأدبية والفكرية وتعرضها على قرائها الأجلاء، وتسمح لهم بالتعليق والرد والنقد البناء المنصف الذي يقصد من ورائه العلم والحق، ويتشرف بكل المداخلات العلمية والفكرية من قبل المتابعين.

بحث هذه المدونة الإلكترونية

الاثنين، 17 يوليو 2017

غزل

ایک تازہ غزل اصحاب ذوق کی عدالت میں
از قلم: عزیر رشید طاہر
               
        ......
بنا کشتی, مجھے دریا کے اب اس پار جانا ہے
 کسی کی ضد پہ اب اپنی خودی کو ہار جانا ہے
جہاں میں روشنی باقی ہے امیدوں کی شمع سے
بچا جو کچھ ہے ترکش میں اسے بھی مار جانا ہے
بڑی حسرت سے تھا دیکھے میرا بچہ کھلونے کو
مجھے اب مفلسی میں پھر نہیں بازار جانا ہے
کہ جس کی آبرو کی قدر میں نیچی نگھ رکھی
اسی بدبخت نے اکثر مجھے  بیمار جانا ہے
مقدر سے ہوں راضی، پھر گلہ کیا بے وفائی کا؟!
یہ ایماں ہے کہ اس کے "نا" کو بھی اقرار جانا ہے
 دیا تھا اس نے جو سادہ ورق مجھکو لفافے میں
 اسے پڑھ کر جدائی کے سبھی اسرار جانا ہے
سیاہی دل کی، کعبہ کے سیہ پردے سے جائیگی
 اسی کے واسطے طاہر "حرم" اک بار جانا ہے

0 التعليقات:

إرسال تعليق

شارك

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More