ایک تازہ غزل اصحاب ذوق کی عدالت میں
از قلم: عزیر رشید طاہر
......
بنا کشتی, مجھے دریا کے اب اس پار جانا ہے
کسی کی ضد پہ اب اپنی خودی کو ہار جانا ہے
جہاں میں روشنی باقی ہے امیدوں کی شمع سے
بچا جو کچھ ہے ترکش میں اسے بھی مار جانا ہے
بڑی حسرت سے تھا دیکھے میرا بچہ کھلونے کو
مجھے اب مفلسی میں پھر نہیں بازار جانا ہے
کہ جس کی آبرو کی قدر میں نیچی نگھ رکھی
اسی بدبخت نے اکثر مجھے بیمار جانا ہے
مقدر سے ہوں راضی، پھر گلہ کیا بے وفائی کا؟!
یہ ایماں ہے کہ اس کے "نا" کو بھی اقرار جانا ہے
دیا تھا اس نے جو سادہ ورق مجھکو لفافے میں
اسے پڑھ کر جدائی کے سبھی اسرار جانا ہے
سیاہی دل کی، کعبہ کے سیہ پردے سے جائیگی
اسی کے واسطے طاہر "حرم" اک بار جانا ہے
از قلم: عزیر رشید طاہر
......
بنا کشتی, مجھے دریا کے اب اس پار جانا ہے
کسی کی ضد پہ اب اپنی خودی کو ہار جانا ہے
جہاں میں روشنی باقی ہے امیدوں کی شمع سے
بچا جو کچھ ہے ترکش میں اسے بھی مار جانا ہے
بڑی حسرت سے تھا دیکھے میرا بچہ کھلونے کو
مجھے اب مفلسی میں پھر نہیں بازار جانا ہے
کہ جس کی آبرو کی قدر میں نیچی نگھ رکھی
اسی بدبخت نے اکثر مجھے بیمار جانا ہے
مقدر سے ہوں راضی، پھر گلہ کیا بے وفائی کا؟!
یہ ایماں ہے کہ اس کے "نا" کو بھی اقرار جانا ہے
دیا تھا اس نے جو سادہ ورق مجھکو لفافے میں
اسے پڑھ کر جدائی کے سبھی اسرار جانا ہے
سیاہی دل کی، کعبہ کے سیہ پردے سے جائیگی
اسی کے واسطے طاہر "حرم" اک بار جانا ہے
0 التعليقات:
إرسال تعليق